سوال: جب شیخ کی صحبت میں رہتے ہیں تو کیفیت بہت اچھی ہوتی ہے؛ مراقبے میں جی لگتا ہے،تسبیحات پڑھنے میں دل لگتا ہے،قرآن کریم کی تلاوت میں مزہ آتا ہے،گناہوں سے بچنے میں مدد ملتی ہے اور نیکی کے کاموں میں آسانی ہوتی ہے لیکن جب شیخ کی صحبت سے دور ہوجاتے ہیں تو وہ کیفیت باقی نہیں رہتی بل کہ معاملہ الٹا ہوجاتا ہے.ایسے میں ہم سالکین بہت پریشان ہوتے ہیں۔رہنمائی فرمائیں
جواب:
یہ کیفیات کی تبدیلی والی بات دور صحابۂ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین سے چلی آرہی ہے۔صحابئ رسول حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ جب نبی علیہ السلام کی صحبت بابرکت سے دور ہوئے تو کیفیت میں واضح تبدیلی محسوس کی۔نافق حنظلۃ،نافق حنظلۃ (حنظلہ منافق ہوگیا،حنظلہ منافق ہوگیا)کہتے ہوئے سڑک پر نکل آئے تھے۔ اس کی وجہ یہی بنی تھی کہ نبی علیہ السلام کی خدمت میں ان کو الگ کیفیت محسوس ہوتی تھی اور گھر جاتے تو الگ کیفیت محسوس ہوتی تھی۔یہی حالت حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے محسوس فرمائ تھی۔ یہ بات سب کے ساتھ پیش آتی ہے۔اس موقع پر نبی علیہ السلام نے خود حضرت حنظلہ اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنھما سے ارشاد فرمایا کہ دیکھو! تمہاری جو کیفیت میری مجلس میں ہوتی ہے،اگر ہمیشہ ویسی ہی رہے تو لَصَافَحَتْکُمُ الْمَلَائِکَۃُ عَلیٰ فُرُشِکُمْفرشتے تمہارے بستروں پر تم سے مصافحہ کریں گے،یعنی تمہاری اتنی بڑی شان ہو جائے گی۔
یاد رکھیں! یہ دنیا ہے اور یہاں کے ماحول کی وجہ سے کیفیت میں فرق آہی جاتا ہے لیکن بنیادی بات یہ ہےکہ کیفیت میں فرق آجانے سے نیکی سے بالکل غافل نہیں ہونا ہے۔ کیفیت میں تبدیلی کی وجہ سے ذکر سے غافل ہوجانا، دین سے بالکل دور ہو جانا، یا گناہوں میں پڑجانا یہ پرلے درجے کی بے وقوفی ہے۔ کوئی عقلمند آدمی ایسی حرکت نہیں کرتا۔
جس طرح ایک ہی سالن صحت کے زمانے میں کھائیں تو مزیدارمحسوس ہوتا ہے اور بیماری کی حالت میں وہی سالن بے مزہ محسوس ہونے لگتا ہے۔بالکل یہی مثال ہے ہماری کیفیات کی کہ شیخ کی صحبت میں رہتے ہیں تو نورانی ماحول کی وجہ سے روح طاقتور ہوجاتی ہے۔اور نیکی کے کام ( ذکر،مراقبہ،تلاوت،نماز و دعا) کرنے میں خوب جی لگتا ہے اور جب شیخ کی مجلس سے چلے جاتے ہیں تو باہر کے گناہوں کے ماحول کی وجہ سے وہ کیفیت باقی نہیں رہتی۔لیکن کیفیت کی اس تبدیلی کی وجہ سے ہمیں نیکی کے کام نہیں چھوڑنا چاہیے جیسے بیماری کی حالت میں ہم کھانا نہیں چھوڑتے۔
*اور ایک نکتہ کی بات یہ ہے کہ کیفیات پر ثواب کی کمی بیشی کا مدار بھی نہیں ہے کہ اللہ پاک اچھی کیفیت کے ساتھ کیے گئے عمل پر زیادہ ثواب عطا فرماتے ہوں اور بدوں کیفیت کیے گئے نیک عمل پر ثواب کم ملتا ہو، ایسا نہیں ہے۔
بلکہ جب جی نہ لگے کیفیت نہ بنے تب توعمل پر دوہرا اجر ملتا ہے،
ہم بس عمل کے مکلف ہیں۔کیفیات کے نہیں۔*